شاہوں کا شاہ عشق ہے، صدر ِصدور عشق
دربار ِدل میں تخت نشیں ہے Ø+ضور عشق

اس Ø+سن ِخوش ادا Ú©ÛŒ تجلی میں یوں لگا
موسیٰ ہوں، لے گیا ہے، سر ِکوہِ طور عشق

اس بار سامنا تھا سلیمان کا تجھے
بلقیس! اب بھی ہونا تھا تجھ کو ضرور عشق

تیرے دماغ کا بھی زلیخا یہی خلل
منصور تیرے سر کا سارا فتور عشق

صØ+را، نواردیوں میں کھپاتا ہے قیس Ú©Ùˆ
کچے گھڑے پہ کرتا ہے دریا عبور عشق

فرہاد تیرے ہاتھوں کا تیشہ یہی تو ہے
شیریں! تجھے بھی کر گیا ہے چور چور عشق

رانجھے تیرا بھی جرم فقط کار ِعشق ہے
ہیرے! تیرا بھی سارے کا سارا قصور عشق